آسیب زدہ سیاست کااگلاشکارکون؟ سمیع اللہ ملک پچھلے تین مہینوں سے زائدپاناماکے غیرروایتی آسیب نے ملکی سیاست کواپنے قبضے میں ایسے جکڑرکھاہے کہ ایک قدم آگے کوجاتاہے تودوقدم پیچھے کواٹھتے نظرآتے ہیں۔ماہ جولائی پھر اسی ۰۷ءاور۰۹ءکی دہائی کی سیاست کااشارہ دینے والاہے۔اپریل سے اٹھنے والا پانامالیکس کامعاملہ سلجھنے کی بجائے الجھتاہی جارہاہے۔وزیراعظم کے قوم سے یکے بعد دیگرے دوخطابات اورپارلیمنٹ میں تقریرکے بعدبھی بگاڑکی رفتارنے ذراسست ہونے کاتاثردیالیکن پھرمعاملہ تیزی پکڑگیا۔اس دوران میاں صاحب بغرضِ علاج۸۴دنوں کیلئے برطانیہ چلے گئے مگران کی غیرموجودگی میں ٹی اوآرزکوحتمی شکل دینے والی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی آٹھ مرتبہ کی بیٹھک کے بعدبھی عملاً ناکام نظرآتی ہے۔اپوزیشن جماعتیں حکومت پربے لچک رویہ کاالزام لگاکراس کمیٹی سے کنارہ کش ہونے کی عندیہ دے رہی ہے ۔کمیٹی کے اجلاسوں میں دونوں جانب سے اپنے اپنے مو¿قف کے حق میں دلائل رکھنا درست مگرکمیٹی سے باہربعض وفاقی وزاراءکے تلخ بیانات اورلہجہ بھی معاملات کوخوش اسلوبی سے طے نہ کرنے کاسبب بن رہاہے۔اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ٹی اوآرکمیٹی کے بارے میں پی ٹی آئی کلی طورپرمایوسی کااظہارکرکے ۰۲جولائی کوسڑکوں پرآنے کے پروگرام کااعلان کرنے والی ہے جبکہ پی پی پی بھی جن اقدامات کی طرف مائل ہے وہ مایوسی کا اظہار ہے لیکن اب وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈاردوبارہ اس معاملے پرگفت وشنیدکیلئے پی پی پی سے مذاکرات میں کسی پیش رفت کیلئے کوشاں ہیں۔