ہمارا تو یہی گمان تھا شاید خان صاحب عرصہ سے کرپٹ مافیا کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ احتجاج، دھرنے، لانگ مارچ ، پارلیمنٹ میں گھیراﺅ اور اعلیٰ عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا مقصد کچھ اور نہیں صرف اور صرف ملکی دولت لوٹنے والوں کا”احتساب“ ہے، مگر چاند میاں ہمارے اس موقف کے حامی نظر نہیں آتے۔کہتے ہیں خان صاحب ایک طرف میاں صاحب کی وزارتِ ”عظمیٰ“ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں تو دوسری جانب انہوں نے عدالتِ ”عظمیٰ“ میں بھی کیس دائر کر رکھا ہے۔ بیک وقت دونوں محاذوں پر میاں صاحب سے لڑائی کی بنیادی وجہ کچھ اور نہیں صرف ”عظمیٰ“ ہے جو ”وزارتِ عظمیٰ“ اور ”عدالتِ عظمیٰ“ دونوں میں مشترک ہے۔
ماہرین علمِ نجوم دعویٰ کرتے ہیں کہ خان صاحب کے ہاتھ میں وزارت عظمیٰ کے بجائے صرف ”شادی“ کی لکیر ہے، دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ خان صاحب وزارتِ عظمیٰ کی امید دِل سے نکال کر تیسری شادی کے لئے کسی ”عظمیٰ“ کی تلاش شروع کر دیں۔ نجومی حضرات کی نئے سال پر خان صاحب کے حوالے سے جو پیشگوئیاں میڈیا کی زینت بن چکی ہیں ،ان کا خلاصہ بھی کچھ یوں ہے کہ 2017ءمیں بھی خان صاحب کا وزیراعظم کی کرسی پر آنا ممکن نہیں البتہ ستاروں کی چال کے مطابق اس سال اُن کی تیسری شادی متوقع ہے۔ کچھ ایسی ہی پیشگوئی وہ حکومتی نمائندے بھی کر چکے ہیں جو خان صاحب کی نظر میں ”درباری“ کہلاتے ہیں۔ن لیگیوں کو عمران خان کی شادی کی فکر اس قدر ستانے لگی ہے کہ پچھلے دنوں وزیراعظم کے سیاسی مشیر انجینئر امیر مقام نے بھی یہ پیشگوئی کر ڈالی کہ خان صاحب وزارتِ عظمیٰ کی نہیں بلکہ جلد تیسری شادی کی شیروانی پہنیں گے۔ ن لیگ والے عمران خان کی تیسری شادی پر سب سے زیادہ خوش کیوں ہونگے؟ اس پر ایاز امیر صاحب ماضی میں بہت ہی دلچسپ تبصرہ کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ابھی اگر خان صاحب کی شادی ہوتی ہے تو سب سے زیادہ خوشی ن لیگ میں منائی جائے گی ، کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ خان صاحب کی شادی ہونے پر پانامہ لیکس کا مسئلہ بھی حل ہو جائیگا۔ بہرحال اگر خان صاحب شادی نہ بھی کریں تو کون سے وہ افسوس سے ہاتھ ملتے نظر آئیں گے۔ دو بار تو وہ دولہا بن ہی چکے ہیں، البتہ بات وزارت عظمیٰ کی ہو تو انہیں ایک موقع آئندہ عام انتخابات کی صورت میں ملتا نظر آ رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی کارڈ کس طرح کھیلتے ہیں۔ اگر 2013ءکی طرح آئندہ بھی وہ ہاتھ ملتے رہ گئے اور عدالتِ عظمیٰ کے پانامہ لیکس پر متوقع فیصلے سے بھی وہ نااُمید ہو گئے تو پھر شاید ”وزارتِ عظمیٰ“ اُن کے ہاتھ کبھی نہ آ سکے۔ ایسے میں خان صاحب کو تیسری بار دولہا بننے کے لئے کوئی ”عظمیٰ“ ہی تلاش کرنا پڑے گی۔ سیاستدانوں کی ایک سے زیادہ شادیاں عام بات ہے۔ جس طرح دیگر بہت سے اقدامات ”جمہوریت کا حسن“ ہیں ،اسی طرح سیاست دانوں کی ظاہری و خفیہ شادیاں بھی ”جمہوریت کا حسن و جمال“ ہوتی ہیں۔ خصوصاً دوسری یا تیسری شادی عموماً بالغ حق رائے دہی کا نتیجہ ہوتی ہے جو جمہوریت کی بنیاد ہے۔