ملک بھارت میں جب سے متعصب اورفرقہ پرست مودی سرکار برسراقتدارآئی ہے ،وہاں پربسنے والی اقلیتوں کاجینادوبھرہوگیاہے اوربھارتی سیکولرجمہوریت کابھانڈہ بیچ بازارمیں ہی نہیں بلکہ دنیابھرمیں اس کے چرچے شروع ہوگئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھارت اندرون ملک میں بڑھتی ہوئی شورش اوربے چینی کوچھپانے کیلئے پاکستان کی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کرکے اپنی عوام کی توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش کررہا ہے
،تاہم جس قدرانسانی حقوق کی پامالی ،لسانی ومذہبی تعصبات بھارت میں پائے جاتے ہیںشائدہی کسی اورملک میں اس کی نظیرملتی ہو۔ عمومی طورپربھارت میں صرف کشمیریوں کی جدوجہدآزادی¿ کوہی تحریک کے طورپردیکھاجاتاہے تاہم ایسانہیں ہے۔بھارت میں مقبوضہ کشمیر کے علاوہ پنجاب،تامل ناڈو،بہار، چھتیس گڑھ،اڑیسہ،ہماچل پردیش،مہاراشٹرسمیت شمال مشرق میں آسام،ناگالینڈ،منی پوراورترقی پورہ سمیت۷۶علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں،جن میں ۷۱بڑی اور۰۵ چھوٹی ہیں۔صرف آسام میں ۴۳علیحدگی پسندتنظیمیں کام کررہی ہیں۔۲۶۱/اضلاع پرعلیحدگی پسندوں کامکمل کنٹرول ہے۔علیحدگی کی تحریکیں بھارتی حکومت اورریاست کیلئے بہت بڑاچیلنج ہے۔ان تحریکوں نے بھارت کے دیگرحصوں آندھراپردیش اورمغربی بنگال پربھی اثرات مرتب کئے ہیں۔دوسری جانب بھارت ،لداخ اوراروناچل پردیش پرچین کے مو¿قف سے بھی انتہائی پریشان ہے۔
علیحدگی کی ان تحریکوں نے بھارت کے ریاستی نظام کوبری طرح مفلوج کررکھاہے۔بھارتی فورسزنے علیحدگی پسندوں کی آوازکودبانے کیلئے ایک عرصے سے بدترین کالے قوانین کی آڑلے رکھی ہے۔ بھارت نے ۱۱ستمبر۸۵۹۱ءکوافسپا(Armed Forces Special Power Act) کے نام سے ایک قانون متعارف کروایاتھاجس کامقصدفوج کو خصوصی اختیارات دے کرملک بھرمیں جاری علیحدگی پسندتحریکوں کاراستہ روکناتھا۔اس قانون کے تحت ایک عام سپاہی کوبھی یہ اختیاردیاگیا کہ وہ کسی بھی شخص کوغدارقراردیکرجیل بھیج دے یاسرعام قتل بھی کردے۔اس اختیارکااستعمال کرتے ہوئے بھارتی فوج نے علیحدگی پسندوں کوچن چن کرنشانہ بنایا۔اس قانون کاسب سے پہلے اطلاق مقبوضہ کشمیر اور منی پورمیں کیاگیاجوبھارت کے نقطہ نظرسے بہت کامیاب رہا،تاہم اس کے باوجودبھی بھارت آزادی¿ پسند وں کومکمل طورپردبانے میں ناکام رہاہے البتہ وقتی طورپرشمال مشرق بھارت سمیت دیگردیگرریاستوں میں بھارتی فورسزان تحریکوں کوکچلتی رہی ہیں لیکن اس حقیقت کوجھٹلایانہیں جاسکتاکہ علیحدگی پسندبھارت کیلئے ایک مستقل سردردبنے ہوئے ہیں جس کی تائیدوقتاً فوقتاًبھارتی میڈیااورعالمی میڈیابھی کرتاہے۔
جہاں تک علیحدگی کی بڑی تحریکوں کاتعلق ہے تواس فہرست میں بھارتی پنجاب میں چلنے والی سکھوں کی خالصتان تحریک کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔۰۷۹۱ءمیں سکھوں نے اپنے حقوق کیلئے اکالی دل کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ،ان کامطالبہ تھاکہ حکومت سکھوں کے ساتھ نارواسلوک کوختم کرکے انہیں تمام شعبوں میں ہندواکثریت کے مساوی حقوق دے لیکن بھارت سرکارنے ان مطالبات پرکان نہیں دھرااورنسلی ومذہبی تعصب کی بناءپرامتیازی سلوک اورزیادتیاں جاری رکھیں۔سکھوں نے ہندوحکمرانوں کے رویے سے مایوس ہوکر۰۸۹۱ءمیں باقاعدہ مسلح جدوجہدکاآغازکیا ۔بھارتی حکومت نے سکھوں کی اس تحریک کوکچلنے کیلئے ریاستی طاقت کابھرپوراستعمال کیا لیکن خالصتان تحریک کوپھربھی کچلانہیں جاسکا۔آخرکار۴۸۹۱ءمیں بھارتی فوج نے امرتسرمیں سکھوں کے روحانی مرکزگولڈن ٹیمپل پرچڑھائی کردی ۔ ان کی مذہبی قیادت کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ قتل وغارت کابازاربھی گرم کیاگیا۔
اس اثناءمیں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کوان کے دوسکھ محافظوں نے گولی مار کرقتل کردیاجس کے جواب میںبھارت کے کئی شہروں میں متعصب ہندودرندوں نے عام سکھ شہریوں پرپٹرول چھڑک کرسرعام زندہ جلا دیااورحکومت کے بے حسی سے صورتحال مزیدخراب ہوگئی۔ادھربھارتی فورسزنے بڑاآپریشن کرکے اکالی دل وخالصتان تحریک کی قیادت کے خلاف طاقت کابھرپوراستعمال کرتے ہوئے تحریک کودبادیا۔۰۹۹۱ءتک یہ تحریک بظاہر اپنی فعالیت کھوچکی تھی تاہم خالصتان کانظریہ نہ صرف پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اورزندہ ہوکرسامنے آگیاہے بلکہ اپنے حقوق کی خاطر سکھوں کے کئی گروہ بھارت کے خلاف جدوجہدکررہے ہیں،جن میں ببرخالصہ انٹرنیشنل،خالصتان زندہ بادفورس،خالصتان کمانڈوفورس،بھنڈرانوالہ ٹائیگرفورس،خالصتان لبریشن فرنٹ اورخالصتان نیشنل آرمی سرفہرست ہیں۔
دوسری اہم تحریک تامل ناڈوبھی بھارت میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہے۔یہ ابتداءمیں ایک لسانی تحریک تھی بعد میں قوت پاکرعلیحدگی کی جانب مائل ہوگئی،اگرچہ تامل بھی ہندو مذہب کے ماننے والے ہیں تاہم یہ تاملی زبان کوہندی سے زیادہ معتبرسمجھتے ہیں ۔ان کاکہناہے کہ حکومت ہم پرہندی مسلط کرکے تاملوں کوغلام بناناچاہتی ہے جوقطعاً منظورنہیں۔ یہ قضیہ اولاً ۷۴۹۱ءمیں سامنے آیاجب کانگرس کی صوبائی حکومت نے اسکولوں میں جہاں تاملی بولنے والوں کی اکثریت تھی،ہندی کولازمی تعلیم کادرجہ دیاجس پرتاملوں نے اپنے
بچو ں کوہندی پڑھانے سے انکارکردیا۔تقسیم ہند کے بعد۰۵۹۱ءکے عشرے میں تاملوں کااحتجاج وسعت اختیارکرگیاجس پرحکومت نے تشددکاراستہ اپناکران کی تحریک کوکچلنے کی کوششیں شروع کردیں۔تاملوں کے ساتھ انسانیت سوزمظالم کے ردّ ِ عمل میں یہ لسانی تحریک ۸۶۹۱ءمیں باقاعدہ بھارت سے علیحدگی کی تحریک میں تبدیل ہوگئیاور اب”تامل نیشنل ریٹریول ٹروپس“(Tamil National Retrieval Troops)کے نام سے بھارت سے مکمل علیحدگی کیلئے مسلح جدوجہدکررہے ہیں۔ بھارت اوراس سے ملحق تامل زبان بولنے والے علاقوں میں اب یہ تحریک شدومدکے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے۔
بھارت کے نقشے پرنظرڈالیں توشمال مشرق کی جانب سات ریاستوں پرمشتمل پٹی دکھائی دیتی ہے جسے تاریخی طورپر ”سیون سسٹر“یعنی(سات بہنیں)بھی کہاجاتاہے جن میں آسام،ناگالینڈ،منی پور،تری پورہ،میزورام،اروناچل پردیش اورمینالیہ شامل ہیں۔ان ریاستوں کوبنگلہ دیش اوربھوٹان نے ڈھانپ رکھاہے۔ یہ ریاستیں بھارتی ریاست مغربی بنگال کی ایک پٹی کے ذریعے بقیہ بھارت سے منسلک ہیں۔یہ علیحدگی پسندگروہوں کامرکزتسلیم کی جاتی ہیںجن میں آسام ،ناگالینڈ،منی پوراورتری پورہ سب سے زیادہ حساس ہیں۔صرف آسام میں ۴۳علیحدگی پسندتنظیمیں سرگرم ہیں جن میں یونائیٹڈلبریشن فرنٹ ،نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ۔کے ماتاپورلبریشن آرگنایزیشن،برچھاکمانڈوفورس،یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا،مسلم ٹائیگرز،آدم سینا،حرکت المجاہدینحرلت الجہاد،گورکھاٹائیگرفورس،پیپلزیونائیٹڈلبریشن فرنٹ سرفہرست ہیں۔
دوسری جانب ایسی ہی تحریکیں ناگالینڈ،منی پوراورتری پورہ میں بھی جاری ہیں۔ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل سب سے زیادہ مو¿ثرہے جبکہ منی پورمیں پیپلزلبریشن آرمی،منی پورلبریشن ٹائیگرزفورس،نیشنل ایسٹ مائنارٹی فرنٹ،کوکی نیشنل آرمی اورکوکی ڈیفنس آرمی جدوجہد میں مصروف ہیں۔اسی طرح تری پورہ آرمڈٹرائبل فورس،تری پورمکتی کمانڈوزاور بنگالی رجمنٹ جدوجہدکررہی ہیں جبکہ ریاست میزورام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ علیحدگی کی تحریک آگے بڑھارہی ہے۔
دراصل بھارت کثیرالثقافتی اورکثیرالسانی ومذہبی ملک ہے،اگرچہ وہ دعویٰ جمہوریت اورسیکولرکاکرتاہے تاہم اس کے باوجودبھی وہاں کی اقلیتیں سب سے زیادہ مظلوم ہیں۔دیگر مذاہب سے صرفِ نظرکرکے صرف ہندومت ہی کودیکھاجائے تومعلوم ہوگاکہ بھارت میں ہندوو¿ں کی نچلی ذاتیں بھی انتہائی غیرانسانی سلوک کاشکارہیں اگرچہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے حقوق کیلئے آوازبلندکرتی رہی ہیں تاہم اس کے باوجودبھی ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اچھوتوں نے بھی”دی دلت فریڈم نیٹ ورک“(The Dalit Freedom Network)کے نام سے آزدی¿ کی تحریک شروع کررکھی ہے۔
اس تناظرمیں عالمی میڈیاکابھی مانناہے کہ بھارت عسکریت پسندی کی وجہ سے اس وقت سب سے زیادہ ناپسندیدہ اورغیرمحفوظ ملک بن گیاہے جہاں ۷۱۳عسکری کیمپ کام کررہے ہیں۔یہ گویاعراق وشام کے بعدبم دہماکوں اورہلاکتوں کے لحاظ سے سب سے بڑاملک بن گیاہے۔عالمی میڈیاپرشائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق بھارت میں ماو¿نواز باغیوں ،تامل علیحدگی پسندوں،خالصہ تحریک اورکشمیری مجاہدین سمیت آزادی کی دیگرتحریکیں عروج پرہیںجس کے سبب علیحدگی پسندوں کی قوت میں بتدریج اضافے کے بعد بھارت کے ۵۲۰۲ءتک کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ان حالات میں بھارت کیلئے اندرونی خلفشارسب سے بڑاخطرہ ہے۔دوسری جانب ہندوانتہاءپسندتنظیموں نے بھی بھارت میں تربیتی کیمپ کھول رکھے ہیں۔شیوسینا،راشٹریہ سیوک سنگھ اوربجرنگ دل کے مظالم اوراقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ سی ہے حریت اورعلیحدگی پسندی کوتقویت ملی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کی مقبوضہ اورحقوق سے محروم ریاستوں میں مظلوم اقلیتوں نے علیحدگی اورآزادی کی راہ چن کرمنزل کی جانب سفرجاری وساری رکھاہے۔