ناروے کے جواں سال مشہور و معروف سیاستدان ڈیپٹی مئیر مسٹر یوسف گیلانی سے انٹرویو
آپکی آواز…. ناروے جو دنیا کا ا میر ترین ملک مالی ہی نہیں عملی کردار کے لحاظ سے بھی ہے یعنی صرف دولت ہی کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ یہ ایک مثالی فلاحی ریاست بھی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلم لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بنا کلمہ کے ایک مسلم ریاست اور معاشرہ ہے جسکا تصور تاریخ میں تو ملتا ہے مگر آج 56مسلم ممالک میں کہیں عملی تو کیا اسکا تصور تک دو ر دور تک نہیں ملتا۔
وہی معاشرہ جس کا تصور حضرت عمر فاروق رضی تعالیٰ عنہ کہ دور میں ملتا ہے کہ جس میں خلیفہ وقت انسان تو انسان جانور وں کے مسائل کے حل کا خود کو زمہ دار اور جوابدہ سمجھتے تھے۔ اور ایسے معاشرہ آپکو ناروے میں ملتا ہے ۔
ایسے معاشرے میں اگر انسان میں حوصلہ جذبہ او ر ہمت ہو تو آگے بڑھنے سے آپکو کوئی نہیں روک سکتا لہذا آج ہم آپکی ملا قات ایسے جوان ہمت سیاستدان سے کراتے ہیں ۔
پس منظر
یوسف گیلانی صاحب کے والدین لیٹ سیکسٹی late sixtyکی دہائی میں ناروے آئے اور یوں سنہ ۲۷۹۱ میں پہلے پا کستا نی بچے کی ناروے میں پیدائش کا شرف بھی یوسف گیلانی کو حاصل ہوا۔ آپ ا علیٰ تعلیم یافتہ یعنی( law ) میں ماسٹرز کیا ہوا ہے جسکے دو سال ناروے میں اور پھر فائنل انٹرنیشنل سکول آف لا نیویارک سے کی۔ اسکے علاوہ آرگنایئزیشن لیڈر شپ کا کورس کیا ۔ دو سال کالج میں لیکچرر کے کام کیا ۔کچھ عرصہ جرنلزم بھی کی۔ اسکے علاوہ آپ کئی زمہ د ار عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں اور آجکل ( آسکر ) شہر میں اہم پوسٹ پر کام کر رہے ہیں۔ آپ ناروے کے چھٹے بڑے شہر درامن کے ڈپٹی میئر کے طور پر بھی سرگرم عمل ہیں۔آپ کو پاکستان سے بہت محبت ہے۔انگلش ، نارویجن زبان کے علاوہ اردو کو بول سکتے ہیں ۔مگر لکھ نہیں سکتے۔ آپ نے پاکستانی نژا د نارویجن لڑکی سے شادی کی ہے جو اردو نہ صرف بول سکتی ہے بلکہ پڑھ اور لکھ سکتی ہے جہاں تک کھیل کی بات ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی نارویجن ہو اور وہ دو لازمی مشاغل نہ رکھتا ہو !
یعنی رضکارانہ کام اور کھیل یہ ہر نارویجن کی فطرت کا حصہ ہے۔ آپ بھی کرکٹ کے بہت شوقین ہیں اور اسکو پروموٹ کرنے میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔بہرحال یوسف گیلانی صاحب آج کی نوجوان نسل کے لیے ایک شاندار مثال ہے ۔ اور پاکستانیوں کے لیے بھی باعث ِ فخر ہیں جو پاکستان کے لیے اتنا پیار اور خلوص رکھتے ہیں کاش کہ ہمارے اپنے پاکستانی سیاستداں ایسے بے لوص لوگوں سے ہی کچھ سکھیں!
سوال ۱ ) آپ سیاست میں کیوں اور کب آئے؟
میں یہاں جس معاشرے میں رہتا ہوں یہاں کے معاشرے کا سٹریکچر ایسا ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے ارد گرد کے ماحول اور مستقبل سے کبھی بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا یہاں کا ہر فرد کسی نہ کسی پارٹی کا ممبر ضرور ہوتا ہے چاہے وہ بہت ایکٹو نہ بھی ہو پھر بھی ملک میں بننے والی حکومتوں کی پالیسیوں پر سب کی نظر ہوتی ہے سو میرا بھی دلچسپی لینا فطری بات تھی یہی وجہ تھی کہ میں نے ۶۹۹۱ میں باقاعدہ سرگرمی سے حصہ لینا شروع کر دیا ۔ہمارا دور ناروے میں ایمگرنٹس کا پہلا(first political badge سیاسی بیج) تھا اور ہم کو اپنا مقام بنانے میں بہت محنت کرنی پڑی اور آج میں 20 سال کی مسلسل محنت اور لگن سے ناروے کا پہلا ایک پاکستانی نژاد ڈیپٹی مئیر کے مقام پر پہنچا اور سب سے اہم اور خوشی کی بات یہ کہ آج بہت سے ہمارے لوگ میدان سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔
سوال ۲) بحثیت ڈیپٹی میئر کے آپکی کیا زمہ داریاں ہیں؟
ج) بنیادی زمہ داری یہ ہے کہ میئر کی غیرموجودگی میں اُنکا قائم مقام کے طور پر نمائندگی کرتا ہوں دوسرا شہر کے تمام منصوبوں اور کاموں میں اپنا (input) اور نمائندگی کرنا مختصر یہ کہ یہ بہت بھاری زمداری یعنی 24/7 کی جاب ہے۔
سوال ۳) آپکو 2014 میں یورپی یونین ایورڈ کس کام کے لیے ملا ؟
ج) یہ آج کی داعش نامی تنظیم کی دہشتگردانہ کاروائیوں کے خلاف میں نے پارلیمنٹ کے سامنے دس ہزار لوگوں کے ساتھ احتجاج کیا تھا اور یہ یورپ میں پہلا احتجاج تھا اور اس کی ابتدا چونکہ میں نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر کی تھی ۔ ایوارڈ دراصل ناروے کو ملا اور ناروے نے اُسکو لینے کے لیے مجھے (nominate )نامینیٹ کیا کیونکہ وہ ( iniciative ) ہمارا تھا ۔
سوال ۴) آپ یہاں کی منیارٹی یعنی ا یمیگرینٹ کے لیے کوئی پلان یا سوچ رکھتے ہے کی ان کے مخصوس مذہبی اور کلچرل پروگراموں کے لیے کوئی جگہ یا سنٹر ہونا چاہیے۔
ج) اُسلو کے بعد درامن میں سب سے ذائد امیگرنٹ ہیں اس لیے بہت پہلے ( Union Sceneیونین سینا) کا کیس میرے پاس آیا تھا اور اسکو بنانے کی بنیاد ی مقصد یہی تھا کہ اس سنٹر میں منیارٹیز اپنے کلچرل پروگرام اور زند گی کے دوسرے مسئلے مسائل کے لیے باقاعدہ اپنی جگہ ہو گی مگر اسکا فائدہ منیار ٹیز اپنی مختلیف ممالک اور مذاہب کی بنا پر نہ اُٹھا سکیں۔ پھر ہم نے ان فلاحی تنطیموں کے لیے ایک امبریلا تنظیم ( Buskerud Innvandrerråd) بنائی او ر اب اس کے تحت مختالف فلاحی ارگنائزیشن کو فنڈینگ کی جاتی ہے جس سے وہ اپنے کلچرل پروگرام کرتے ہیں۔
سوال ۵ ) امیگرنٹس کے لیے کوئی خاص کام جو آپ کرنا چاہتے ہوں؟
ج) ہم کچھ عرصہ سے مسلم کمیونٹی کے لیے اُولڈ پیپلز ہوم بنانے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جو آج وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ یہاں کی سوسائٹی میں گھر کا ہر فرد کام کرتا ہے تو ایسے میں بزرگوں کی دیکھ بھال کافی سریس مسئلہ بن جاتا ہے لہذا ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور اس سے ہمارے بزرگوں کو ایک صحٹ مند ماحول ملے گا۔
سوال ۶) یہاں پر مسلم کمیونٹی کو چائلڈ کئیر سنٹر میں لئے جانے والے بچوں کے خدشات کے سلسلے میں آپ کیا کر رہے ہو؟
ج) اس مسئلے پر مسلسل بحث مباحثہ کر کے کافی بہتری کر دی گئی ہے اب کئی سٹیجز کے بعد کوئی بچہ لیا جاسکتا ہے اس لیے والدین سے یکدم بچہ نہں لیا جاسکتا بلکہ بار بار والدین کو بتایا اور گائڈ کیا جاتا ہے ۔اُسکے باوجود بھی اگر والدین کا رویہ بچوں سے مثبت نہ ہو تب کہیں جا کر بچے کو سنٹر میں بیجھنا ضروری ہو جاتا ہے۔
اور اہم بات یہ کہ مسلم بچے کو حلال کھانا دیا جاتا ہے۔اور وہ جو ایسے بچوں کو ایڈپٹ کرتے ہیں انھیں باقاعدہ ایک کورس پاس کرنا ہوتا ۔ اسکے بعد ہی کسی بچے کو وہ ( adopt) کر سکتے ہیں۔
سوال ۷) آپ کا ناروے میں مساجد کے رول کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ج) ایک مسلمان ہونے کے ناطے مجھے اپنے مذہب پہ فخر اور اللہ کا احسان ہے لیکن ایک بات جو محسوس ہوتی ہے کہ یہاں بھی پاکستان کی طرح ( معیار پر تعداد
( quantity than quality)کو ترجیح دی جا رہی ہے جو کہ مایوس کن بات ہے او ر دوسری بات یہ کے اکثر امام جو پاکستان سے آتے ہیں ان کے پاس مکمل تعلیمات اور معلومات کی کمی ہے جبکہ دوسرے ممالک اور معاشرے میں ان کو اپنے ملک کی نسبت زیادہ باخبر اور مقامی زبان پر دسترس ہونی چاہیے ۔تاکہ یہاں اگر مقامی دوسرے مذاہب کے لوگوں کے سوالات ہوں تو اُن کا بہترجواب دے سکیں اور اُنھیں مطمعین کر سکیں۔
سوال ۸) امام کی تعلیمات کے بارے میں آپ کیا کوشیش کر رہے ہیں؟
ج) میں نے بہت پہلے یہ تجویز دی تھی کہ امام کے لیے یونیورسٹی میں کو ئی مختصر سا کورس ہونا چاہیے اور میں یہ بتا دوں کہ انشااللہ بہت جلد یہ کورس اُسلو یونیورسٹی میں کرایا جا سکے گا۔ جس سے نہ صرف اپنے لوگوں کو بہتر معلومات دستیاب ہونگی بلکہ کسی مسئلے کی صورت میں یہ مقامی حکومت کے ساتھ مل کر بہتر خدمات ادا کر سکیں گے۔
سوال ۹ )ایک اہم پاکستانی نژاد نارویجن سیاستدان ہونے کے ناطے آپ دونوں ممالک کے بہتر رابطے او ر تعلقات کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
ج) ناروے اگرچہ میرا پیدائشی ملک ہے جس سے محبت فطری بات ہے مگر پاکستان سے بھی میں بہت محبت کرتا ہوں اس لیے ہی تو میں کوشیس کر رہا ہوں کے دنیا بھر میں جو ( twin city or sister city concept) کی طرح ہماری کمیون بھی کسی پاکستان کے شہر کو ایڈاپٹ کرے تو اسکا
بہت فائدہ ہو گا کیونکہ اس طرح اُس شہر کی فلاح بہبود میں یہاں کی کمیون بھرپور مدد کرے گی ۔۔اور ایک بار کوئی ایک تجربہ کامیاب ہو ا تو نا صرف ناروے دوسرے شہروں کو اسظرح ہلپ کرے گا بلکہ یورپ کے دوسرے ممالک بھی اس منصوبے میں عملی دلچسپی لیکر دوسرے شہروں کو ایڈاپٹ کرکہ پاکستانی عوام کے لیے بہترین انداز میں مدد دے سکیں گے یعنی بہتر تعلیم اور صحت کی سہولیات وغیرہ۔
سوال ۰۱) کیا وجہ ہے کے ناروے فنڈینگ کسی پاکستانی ارگنائزیشن کے بجائے اپنی( این۔ جی۔ اوز) کو دیتی ہیں جبکہ پاکستان کے مسائل مقامی لوگ بہتر جانتے ہیں؟
ج) اس کا جواب تو کوئی معمہ نہیں پاکستان اور کچھ دوسرے ممالک کی بیشتر ( این۔ جی۔ اوز) نے اسکو بزنس بنایا ہوا ہے اور انھوں نے اپنا اعتماد خو د کھویا ہے۔
حالانکہ جو صحیصح کام کرتے ہیں ان کو فنڈ ملتے ہیں مثلاّ لاہور کے ایک قریبی گاوّں ( بدو ملی )کی آرگنائزیشن کو مکمل تعاون حاصل ہے کیونکہ جو کام کرتے ہیں اُن کو پھر سپورٹ ملنا کوئی مسئلہ نہیں جسکی عام مثال ایدھی آپکے سامنے ہے ۔
سوال ۱۱)کیا آپ تعلیم کے سلسلے میں پاکستان کی کسی طرح کی مدد کر سکتے ہیں؟
ج) ایک پلان ( students exchange program) پر ڈیٹی میئر بننے سے پہلے سے لگا ہوا ہوں جسکا فلو ¿اپ الیکشن کی وجہ سے سست ہوا ہے پر اسکو چھوڑا نہیں ہمارا مقصد یہ ہے کہ غریب طبقے کے نوجوانوں کو بہتر تعلیم کے مواقع ملیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کو ئی گورنمینٹ کا سکول ایسے ملے جس کا معیار قدرے بہتر ہو ! تاکہ یہاں کے اسٹوڈنٹ جب وہاں جائیں تو کوئی پریشانی نہ ہو اس طرح اگر یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو اگر ہر سال ۰۳ بچوں کو اس پروگرام کے تحت ناروے میں بہترین تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا تو صرف دس سال میں تین ہزار اعلیٰ کوالیفائیڈ نوجوان پاکستان کو آسانی سے مل سکیں گے۔
سوال ۲۱) ناروے میں پاکستان کی نئی نسل یعنی جو نارویجن سٹیزن ہیں کا سیاست میں کیا فیوچر ہے؟
ج) آج حالات ہما رے دور سے بہت بہتر ہیں ہم کوخود کو منوانے اور بہتر ثابت کرنے کے لیے مقامی سیاست دانوں کی نسبت کئی گنا زیادہ محنت کرنی پڑی لیکن الحمدللہ ہمارے تمام ساتھیوں کی اس میدان میں انتک کوشیشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج حالات بہت بہتر ہیں اور نئی نسل کا سیاسی فیوچر بہت روشن ہے۔